اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے پہلگام حملے کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد اور مکانات کے انہدام پر شدید تشویش کا ا ظہار کیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 25, 2025, 4:01 PM IST | Hague
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے پہلگام حملے کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد اور مکانات کے انہدام پر شدید تشویش کا ا ظہار کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے آٹھ خصوصی نمائندوںنے پیر کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعدہندوستانی حکام نے کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ماہرین نے کہا”ہم وحشیانہ دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور متاثرین، ان کے خاندانوں اورہندوستان کی حکومت سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ تاہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تمام حکومتوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔“
یہ ماہرین ، بین ساؤل (دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق)، مورس ٹِڈبال-بنز (عدالت سے باہر قتل)، نزیلہ غنیہ (مذہب کی آزادی)، بالا کرشنن راجا گوپال (رہائش کا حق)، نیکولس لیوراٹ (اقلیتی امور)، پاؤلا گوئریا (اندرونی طور پر بے گھر افراد کے حقوق)، آئرین خان (اظہارِ رائے کی آزادی) اور میری لالور (انسانی حقوق کے محافظوں کی صورتِ حال) ہیں۔بیان کے مطابق حملے کے فوراً بعد ہندوستانی حکام نے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیے جس کے نتیجے میں تقریباً ۲۸۰۰؍ افراد کو گرفتار اور نظر بند کیا گیا، جن میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں۔کچھ افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ یا( UAPA )(قانونِ غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ) کے تحت گرفتار کیا گیا، جو بغیر الزام اور مقدمے کے طویل جیل کی اجازت دیتے ہیں۔ کئی قیدیوں پر تشدد، تنہا قید اور وکیل/خاندان سے ملاقات سے محروم رکھنے کے الزامات ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ایتھوپیا میں ہزاروں سال بعد پھٹنے والے آتش فشاں کے غبار سے ہندوستان بھی متاثر
ماہرین نے بے جا گرفتاریوں، حراستی اموات، تشدد، لِنچنگ اور کشمیری و مسلم معاشرے کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کی۔انہوں نے بغیر عدالتی حکم کے ان کارروائیوں کا حوالہ دیا۔ ”یہ اقدامات اجتماعی سزا کے زمرے میں آتے ہیں اور بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہیں جس میں ایسی مسماریوں کو غیر آئینی اور زندگی و وقار کے حق (بشمول من ماننے بے دخلی سے تحفظ) کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔“ماہرین نے مواصلاتی بلیک آؤٹ اور پریس کی آزادی پر پابندیوں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ حکام نے موبائل انٹرنیٹ معطل کر دیا اور تقریباً ۸۰۰۰؍ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے جن میں صحافیوں اور آزاد میڈیا کے اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ ”یہ اظہارِ رائے، اجتماع اور پرامن احتجاج کی آزادیوں پر غیر متناسب پابندیاں ہیں۔“ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی حملے کا ردِعمل دیکھا گیا۔ کشمیری طلبہ کی نگرانی اور ہراسانی کی گئی، یونیورسٹیوں کو ان کا ذاتی ڈیٹا جمع کرنے کے احکامات دیے گئے۔ مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر اکسایا گیا، خاص طور پر حکمراں جماعت کے سیاست دانوں کی طرف سے۔ گجرات اور آسام میں ہزاروں مسلم گھر، مساجد اور کاروبار مسمار کیے گئے۔تقریباً۱۹۰۰؍ مسلمان اور روہنگیا مہاجرین کو بغیر قانونی عمل کےبنگلہ دیش اور میانمار واپس بھیج دیا گیا۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی مہاجر کو اس ملک میں واپس نہیں بھیجا جا سکتاجہاں اس کے قتل کا احتمال ہو۔
یہ بھی پرھئے: ہندوستان: لیبر قوانین نافذ: کم از کم اجرت اور سماجی تحفظ کا دعویٰ
ماہرین نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے محافظوں عرفان مہراج اور خرم پرویز سمیت کئی افراد کی برسوں سے ڈراکونین قوانین کے تحت من ماننے نظربندی کی نشاندہی کی اور فوری غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔ ماہرین نے ان تمام واقعات کا آزاد ذرائع سے تحقیق کا مطالبہ بھی کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”حد سے زیادہ انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات نہ صرف انسانی وقار، ہندوستانی آئین اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ سماجی تقسیم اور شکایات کو ہوا دے کر مزید تشدد کا باعث بنتے ہیں۔“آخر میں ماہرین نے ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں سے پرزور اپیل کی کہ وہ جموں و کشمیر کے طویل تنازع کو پرامن طریقے سے حل کریں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سرحد پار تشدد کے تباہ کن چکر کی وجہ بنتا ہے۔